غزل
تھک کر جب بھی بیٹھ گیا ہوں میں پیپل کی چھاؤں میں
گوتم آیا گوتم آیا شور مچا ہے گاؤں میں
کھوج میں اس کی شہروں شہروں گھوم رہا ہوں صدیوں سے
جس کا نام لکھا ہے میرے ہاتھوں کی ریکھاؤں میں
مت لے جاؤ دھوپ کے اس جنگل میں بوجھل آنکھوں کو
چبھ جائیں گے خار حقیقت خواب کے کومل پاؤں میں
اپنے من کی آشاؤں کے پھول پرونا کام مرا
معنی کی خوشبو تم سونگھو شبدوں کی مالاؤں میں
سورج کی کرنوں کی برچھی روح کو زخمی کرتی ہے
آؤ یارو لوٹ چلیں ہم تنگ و تار گپھاؤں میں
صبا اکرام