غزل
آ گیا وصل میں ان کو جو پسینا ٹھنڈا
مجھ سے بولے کہ ہوا اب تو کلیجا ٹھنڈا
شعلۂ داغ کو آہوں سے بڑھا دیتے ہیں
صورت شمع وہ کرتے ہیں کلیجا ٹھنڈا
میں جو روتا ہوں تو ہنس ہنس کے یہ فرماتے ہیں
تیری آہوں نے کیا میرا کلیجا ٹھنڈا
خون مجھ پر نہ ہو پروانے جلے جاتے ہیں
کر چراغ سر مرقد کو خدایا ٹھنڈا
بند بلبل کی ہوئیں کنج قفس میں آنکھیں
صحن گلشن سے جو آیا کوئی جھونکا ٹھنڈا
سرد نالے جو کیے فرقت گل میں شب کو
آہ بلبل سے ہوا باغ کا رستا ٹھنڈا
سرد آہیں جو بھریں بیٹھ کے ساحل پہ کبھی
اور بھی ہو گیا دریا کا کنارا ٹھنڈا
شمع رو گرمیاں کیونکر نہ کریں محفل میں
دل جلیں اور کے ان کا ہو کلیجا ٹھنڈا
آگ دل میں ہے قیامت کی لگی اے جراح
آتشیں داغ پہ رکھ دے کوئی پھاہا ٹھنڈا
وصل بے ہجر کے ہوتا نہیں فاخرؔ کو نصیب
دل جلاتے ہیں تو کرتے ہیں کلیجا ٹھنڈا
فاخر لکھنوئی