غزل
دکھائی دیتے ہیں دھند میں جیسے سائے کوئی
مگر بلانے سے وقت لوٹے نہ آئے کوئی
مرے محلے کا آسماں سونا ہو گیا ہے
بلندیوں پہ اب آ کے پیچے لڑائے کوئی
وہ زرد پتے جو پیڑ سے ٹوٹ کر گرے تھے
کہاں گئے بہتے پانیوں میں بلائے کوئی
ضعیف برگد کے ہاتھ میں رعشہ آ گیا ہے
جٹائیں آنکھوں پہ گر رہی ہیں اٹھائے کوئی
مزار پہ کھول کر گریباں دعائیں مانگیں
جو آئے اب کے تو لوٹ کر پھر نہ جائے کوئی
گلزار