غزل
متاع آبرو لے کر عطا سے کچھ نہیں ہوتا
بہا ہو خون دل تو خوں بہا سے کچھ نہیں ہوتا
مزاج دل بگڑ جائے تو پھر اے مہرباں سنیے
جفا سے کچھ نہیں ہوتا وفا سے کچھ نہیں ہوتا
سر مقتل تمہارے کارنامے سب نے دیکھے ہیں
سر منبر بہت آہ و بکا سے کچھ نہیں ہوتا
زباں کھل جائے تو سب بندشیں بے سود ہوتی ہیں
قدم اٹھ جائیں تو زنجیر پا سے کچھ نہیں ہوتا
محمد رئیس علوی