غزل
گلا بیٹھا ہے کٹنے کی ہوس میں ہچکیاں بھر کر
چلا ہے کوئی ترکش میں قفس کی تیلیاں بھر کر
کھڑے ہو بارشوں کی آس میں کیا کشت دل والو
کوئی بیٹھا ہوا ہے بادلوں میں بجلیاں بھر کر
یہاں تو حرف کا ہونٹوں پہ آتے دم نکلتا ہے
دل دیوانہ دامن میں چلا ہے عرضیاں بھر کر
تبسم زیر لب بھی عشق کو موج تسلی ہے
سمندر سو گیا دامن میں خالی سیپیاں بھر کر
کسی نے جب دل برباد کا احوال پوچھا ہے
بگولے رہ گزر کی خاک لائے مٹھیاں بھر کر
ہمارے شوق کا حاصل ہے یہ اب کوئی کیا ٹھہرے
کھڑے ہیں جیب میں دامن کی اپنے دھجیاں بھر کر
محمد رئیس علوی