غٖزل
ادھر بھی آئیں کبھی دھوپ کے ستائے ہوئے
شجر کھڑے ہیں سر راہ سر جھکائے ہوئے
کچھ اور بات کرو گردش جہاں کے سوا
نہ واقعات سناؤ سنے سنائے ہوئے
زمیں پہ ڈھیر کئے دوپہر کے سورج نے
تمام پھول شب ماہ کے کھلائے ہوئے
دھواں دھواں ہیں وہ چہرے بھی اب نہ جانے کیوں
مرے لیے تھے کبھی جن پہ رنگ آئے ہوئے
کچھ اور ہو کہ نہ ہو زاد راہ منزل شب
سحر کے خواب تو آنکھوں میں ہیں سجائے ہوئے
کھلی فضا سے کوئی واسطہ نہ تھا جب تک
ہم اپنے آپ میں خود کو رہے چھپائے ہوئے
ہوا کی زد پہ جب آئے تو بجھ گئے خاورؔ
وہ سب چراغ جو میرے نہ تھے جلائے ہوئے
رحمان خاور