loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

18/06/2025 15:56

پرانے محلے کا سنسان آنگن

غزل

پرانے محلے کا سنسان آنگن
مجھے پا کے تھا کتنا حیران آنگن

یہ تہذیب کو پاؤں چلنا سکھائیں
سمیٹے ہیں صدیوں کے امکان آنگن

وہ دیوار سے جھانکتی شوخ آنکھیں
وہ پہرے پہ بوڑھا نگہبان آنگن

کوئی جست میں پار کرتا ہے چوکھٹ
کسی کے لئے اک بیابان آنگن

کسی کے لئے پایۂ تخت ہے یہ
کسی کے لئے ایک زندان آنگن

سنا رفتہ رفتہ کھنڈر ہو رہے ہیں
وہ آباد گلیاں وہ گنجان آنگن

کدھر جائیں تہذیب کی ہجرتوں میں
یہ بوڑھے درخت اور یہ ویران آنگن

عشرت آفرین

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم