غزل
دل اتنی کشاکش سے نکل جائے تو اچھا
یہ پھول کسی آگ میں جل جائے تو اچھا
معیوب جو لہجے ہیں وہ معتوب نہ ہوں گے
اپنا ہی یہ انداز بدل جائے تو اچھا
انسان کو انساں ہی کہا جائے تو بہتر
تشبیہ مہ و مہر بدل جائے تو اچھا
بے نور ستاروں کی گواہی کے بجائے
مژگاں پہ کوئی اشک مچل جائے تو اچھا
ترویج محبت کے لئے شعر کہوں گی
یہ روگ ہر اک ذات میں پل جائے تو اچھا
فرسودہ روی ایسی کہ ہم نے بھی یہ سوچا
دل کوئے ملامت سے نکل جائے تو اچھا
جس نے کبھی ملنے کی بھی پروا نہیں کی ہے
اس تک جو نسیمؔ اپنی غزل جائے تو اچھا
وضاحت نسیم