غزل
ساحل نہ کوئی اب کے مری دسترس میں تھا
طوفان کون سا مری موج نفس میں تھا
مجبوریوں کے ڈھونڈھ کے لایا تھا وہ جواز
مجھ سے بچھڑتے وقت مگر پیش و پس میں تھا
لو دے رہا تھا مجھ میں اندھیروں کے باوجود
شاید کوئی شرار جو شمع نفس میں تھا
کس طرح دیکھتا کوئی اندر کی روشنی
ہر شخص خواہشات کے اندھے قفس میں تھا
آنگن کی چھاؤں سے کہیں باہر کی دھوپ تک
بس اتنا فاصلہ ہی تو عشق و ہوس میں تھا
عابدہ کرامت