غزل
جو دکھ دیے تھے کبھی تم کو آزمانے کو
وہ تیر بن کے پلٹ آئے سب نشانے کو
تمہارا ساتھ نہ ہوتا تو بے اماں ہوتے
تمہاری چھاؤں ضروری تھی آشیانے کو
نہیں ہے خوف کہ نیچا دکھائے گی دنیا
جو ساتھ تم رہو جاناں مجھے اٹھانے کو
جو میں نے اپنی ہی گدڑی میں خود اجالے ہیں
وہی ہیں لعل بہت زندگی سجانے کو
ضروری ہے کہ رہے تازگی محبت میں
رفاقتیں نہ رہیں وعدہ اب نبھانے کو
جو تنکے تنکے جمع کر کے آشیانہ بنے
بس ایک برق ہے کافی اسے جلانے کو
مقام عظمت آدم سمجھ میں آنے لگا
فرشتے چومنے آتے ہیں آستانے کو
ہمارے بعد بھی مہکا کرے گی بزم طرب
اگرچہ عمر لگے گی ہمیں بھلانے کو
رہے گی زندہ مرے بعد داستاں میری
پڑھیں گے لوگ ہمیشہ مرے فسانے کو
کرامتؔ ان کو زمانہ سلام کرتا ہے
جو نوک پا پہ ہی رکھتے ہیں اس زمانے کو
کرامت غوری