غزل
سوال یہ ہے سبب کس سے قتل کا پوچھیں
کہ جس نے قتل کیا وہ ہی بے زباں نکلا
امیر شہر تو لفظوں کے جال بنتا ہے
مگر جو سچ تھا وہ فقروں کے درمیاں نکلا
ہمارے بعد بھی کیا زیب دار ہوگا کوئی
یہی سوال مرا زیب داستاں نکلا
ہم اپنی عقل کو الزام دیں کہ قسمت کو
ہمارے دور میں رہزن بھی پاسباں نکلا
جبیں جھکی تو زمیں اٹھ کے عاجزی سے ملی
جو سر اٹھا تو بہت دور آسماں نکلا
رہے ہیں ہم تو کرامتؔ گئے دنوں کے نقیب
کہ ہم سے عہد نیا سخت بد گماں نکلا
کرامت غوری