غزل
ہوش میں آتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد
دن نکلتا ہے اندھیری رات ڈھل جانے کے بعد
ہر کوئی دنیا میں اپنے کو سمجھتا ہے خدا
ایک دیوانہ پڑا ہے ایک دیوانے کے بعد
آپ آنکھوں سے پلائیں اور پھر دیکھیں ذرا
ایک پیمانہ بھرے گا ایک پیمانے کے بعد
کون کہتا ہے نہیں ہے عشق میرا کامیاب
ذکر کرتے ہیں وہ میرا اپنے افسانے کے بعد
ایک پردہ بھی رہے گا دل لگی کی دل لگی
ایک مسجد بھی بناؤ ایک میخانے کے بعد
بے تکی کرتا ہے باتیں جب تلک پیتا نہیں
ہوش میں آتا ہے واعظ جام چھلکانے کے بعد
کیا کرے کوئی بھروسہ رہنماؤں پر کنولؔ
خود بہک جاتے ہیں اکثر ہم کو سمجھانے کے بعد
ڈی راج کنول