غزل
یہ بھی جی چرا بیٹھی بار غم اٹھانے سے
زیست دے گئی دھوکہ موت کے بہانے سے
درد کو کسی پہلو چین ہی نہیں آتا
زندگی مصیبت ہے دل کے ٹوٹ جانے سے
فطرت محبت کا رنگ ہی نرالا ہے
یاد آتے جاتے ہیں اور وہ بھلانے سے
کس قدر تلون ہے آدمی کی فطرت میں
مطمئن نہیں ہوتا یہ کسی بہانے سے
آپ ہو گئے نالاں موت ہو گئی آساں
ختم ہو گیا طوفاں دل کے ڈوب جانے سے
نعرۂ انا الحق سے ہم تو صرف یہ سمجھے
بات تھی چھپانے کی کہہ گئے زمانے سے
پڑ گئی ہیں بنیادیں ہر جگہ نشیمن کی
گر گئے تھے تنکے کچھ میرے آشیانے سے
دوستوں سے اے میکشؔ بے رخی کا شکوہ کیا
رسم ہی محبت کی اٹھ گئی زمانے سے
استاد عظمت حسین خاں