غزل
زندگی اک زہر تھی اس زہر کو پینا پڑا
مسکرا کر دوستوں کے درمیاں جینا پڑا
اس کو بھی مجھ سے شکایت تھی نہ تھا مجھ کو گلہ
جانے کیسے دو دلوں کے درمیاں کینہ پڑا
تھی عدالت میں گواہی ہاتھ تھے قرآن پر
جھوٹ کے کانٹوں سے لیکن سچ کا منہ سینا پڑا
فرش پر میں عرش پر وہ کیسے اس سے جا ملوں
راہ میں ہے طور سے بھی اونچا اک زینہ پڑا
بدنام نظر