غزل
موسم ہے بہاروں کا ہر اک زخم ہرا ہے
احساس غم سوز دروں جاگ اٹھا ہے
بڑھ جائے نہ بیتابیٔ دل صبر کی حد سے
گزرے ہوئے لمحوں نے تمہیں یاد کیا ہے
بدمست فضاؤں میں بکھرتی ہوئی خوشبو
اے دوست یہ شاید ترے آنے کا پتا ہے
اک تم سے ہی دل کو مرے مل جاتی ہے ڈھارس
ورنہ یہاں ہر شخص بہت مجھ سے خفا ہے
اپنوں نے ہی دی ہے مجھے ہر موڑ پہ ٹھوکر
نازک تھا مرا شیشۂ دل ٹوٹ گیا ہے
اب بھول گیا عارض و لب گیسو و ابرو
ہونٹوں کا تبسم ترے بس یاد رہا ہے
سنتے ہیں سیہ راتوں میں لوٹے گئے سب لوگ
بسملؔ تو مگر دن کے اجالے میں لٹا ہے
بسمل اعظمی