غزل
شکایت ہم نہیں کرتے رعایت وہ نہیں کرتے
مگر اس پر ستم کوئی وضاحت وہ نہیں کرتے
رواں ہو کس طرح سے چاہتوں کا کارواں اپنا
ہمیں رسوائی کا ڈر ہے بغاوت وہ نہیں کرتے
ہمی جلوہ دکھاتے ہیں ہمی شوخی نگاہوں سے
نہیں ہوتا اثر پھر بھی شرارت وہ نہیں کرتے
نظر دو چار ہو جائے تو جھک جاتی ہیں یہ پلکیں
مگر پھر بھی کوئی جذبہ عنایت وہ نہیں کرتے
صبا لے کر پیام آئے یا پھولوں کا سلام آئے
کسی بھی موسم دل سے محبت وہ نہیں کرتے
کوئی نامہ کوئی ای میل میرے نام لکھ دیں وہ
محبت میں کبھی اتنی بھی زحمت وہ نہیں کرتے
فرح اقبال