غزل
رکوں تو رکتا ہے چلنے پہ ساتھ چلتا ہے
مگر گرفت میں آتا نہیں کہ سایہ ہے
جھلس رہے ہیں بدن دھوپ کی تمازت سے
کہ رات بھر بڑے زوروں کا ابر برسا ہے
ابھی تو کل کی تھکن جسم سے نہیں نکلی
ستم کہ آج کا دن بھی پہاڑ جیسا ہے
سمجھ رہے تھے جسے ایک مہرباں بادل
وہ آگ بن کے ہری کھیتیوں پہ برسا ہے
وہ ایک شخص جسے آج تک نہیں دیکھا
خیال و فکر پہ اس شخص کا اجارہ ہے
دبیز پردوں کے پیچھے نہ جھانکئے کہ وہاں
گئے دنوں کو نشانی بنا کے رکھا ہے
شفیقؔ ڈھونڈنے نکلے تھے گھر سے ہم جس کو
وہ کرچیوں کی طرح راستوں میں بکھرا ہے
شفیق سلیمی