غزل
ان آنکھوں کا مجھ سے کوئی وعدہ تو نہیں ہے
تھوڑی سی محبت ہے زیادہ تو نہیں ہے
اسلوب نظر سے مرا مفہوم نہ سمجھے
وہ یار مرا اتنا بھی سادہ تو نہیں ہے
آغاز جو کی میں نے نئی ایک محبت
یہ پچھلی محبت کا اعادہ تو نہیں ہے
سینے میں بجھا جاتا ہے دل میرا سر شام
اس غم کا علاج آتش بادہ تو نہیں ہے
پھر سے تری آنکھوں میں سوا رنگ محبت
پھر ترک محبت کا ارادہ تو نہیں ہے
پرواز کے سب خواب یہیں رکھے ہیں میں نے
گو کنج قفس اتنا کشادہ تو نہیں ہے
خانوں میں بھٹکتا نظر آیا مجھے انسان
شطرنج زمانہ کا پیادہ تو نہیں ہے
جاتے ہیں کہیں اور پہنچتے ہیں کہیں اور
اک اور بھی جادہ پس جادہ تو نہیں ہے
سید فراست رضوی