غزل
نہ بت کدے میں نہ کعبے میں سر جھکانے سے
سکوں ملا ہے تری انجمن میں آنے سے
مرے جنوں کو محبت سے دیکھنے والے
ذرا نگاہ بچائے ہوئے زمانے سے
میں مسکرا تو دیا ان کی بے نیازی پر
یہ کیا کہ دل پہ لگی چوٹ مسکرانے سے
بہت کیا ہے حقیقت کی تلخیوں سے گریز
مگر بہل نہ سکا دل کسی فسانے سے
خوشا کہ عہد قفس میں بھی زندگی کے لیے
نگاہ کھیلتی رہتی ہے آشیانے سے
اداس دل کو سہارا نہ مل سکا جاویدؔ
اندھیری شب میں ستاروں کے جگمگانے سے
فرید جاوید