غزل
وقت کے ساتھ نئی سوچ میں ڈھل جاتے ہیں
ہم وہ سکے ہیں جو ہر دور میں چل جاتے ہیں
اتنے مانوس ہوئے مجھ سے مرے گھر کے چراغ
شام ہوتے ہی مجھے دیکھ کے جل جاتے ہیں
دیکھ لیتا ہوں جو کچھ دیر تری آنکھوں کو
تیری آنکھوں سے مرے خواب بدل جاتے ہیں
اک تکلف میں لحافوں کا سہارا لے کر
آستینوں میں چھپے سانپ بھی پل جاتے ہیں
وقت کب ہاتھ سے جاتا ہے کسی کے ساحرؔ
وقت کے ہاتھ سے ہم لوگ نکل جاتے ہیں
جہانزیب ساحر