غزل
کسی کے دکھ پہ اگر ہم ملال کرتے ہیں
عجیب لوگ ہیں الٹا سوال کرتے ہیں
کبھی کبھی تو اسے پھونکنے کو جی چاہے
وہ گھر کہ جس کی بہت دیکھ بھال کرتے ہیں
تمہارے ساتھ نہیں مسئلہ یہ شکر کرو
جو تم کو دیکھ کے سانسیں بحال کرتے ہیں
تمہیں بکھرتے ہوئے پھول اچھے لگتے تھے
سو اپنی ذات کو ہم پائمال کرتے ہیں
بھلا ہو شہر ستم گر ترے مکینوں کا
یہ مرنے والوں کا کتنا خیال کرتے ہیں
تمہارا ہجر غنیمت ہے ایسے موسم میں
تمہارے وصل کے لمحے نڈھال کرتے ہیں
وہ جن کو ٹھیک سے آتا نہیں ہے کام کوئی
کمال ہے کہ وہ ساحرؔ کمال کرتے ہیں
جہانزیب ساحر