غزل
برملا وہ بھی اگر ہم کو دغا دیتا ہے
دل بیتاب اسے منہ پہ سنا دیتا ہے
وہ ستم کیش جب آزار نیا دیتا ہے
ہم سمجھتے ہیں کہ الفت کا صلہ دیتا ہے
عشق کی آگ تو ہے یوں بھی فنا کا پیغام
دل نا فہم عبث اس کو ہوا دیتا ہے
آزما لیتا ہوں احباب کو گاہے گاہے
ورنہ دینے کو تو ہر چیز خدا دیتا ہے
اور کچھ بھی ہو مگر اس سے تو انکار نہیں
عشق انسان کو انسان بنا دیتا ہے
میں جو پیتا ہوں بلا ناغہ شراب اے واعظ
کیوں تجھے چڑ ہے اگر مجھ کو خدا دیتا ہے
رہبری وہ ہے کہ آسودۂ منزل ہو کوئی
ورنہ رستہ تو ہر اک شخص بتا دیتا ہے
اب نہ کیوں ناز کروں اپنی وفا کیشی پر
اب تو خود دوست مجھے داد وفا دیتا ہے
ساقیٔ بزم کا یہ خاص کرم ہے ساحرؔ
دیکھتے ہی مجھے نظروں سے پلا دیتا ہے
ساحر سیالکوٹی