غزل
میں جنہیں فریب سمجھوں تری یاد مہرباں کے
وہ چراغ بجھ گئے ہیں مری عمر جاوداں کے
نہ یہ لالہ زار اپنے نہ یہ رہ گزار اپنی
وہی گھر زمیں کے نیچے وہی خواب آسماں کے
یہ پیالہ ہے کہ دل ہے یہ شراب ہے کہ جاں ہے
یہ درخت ہیں کہ سائے کسی دست مہرباں کے
مجھے یاد آ رہے ہیں وہ چراغ جن کے سائے
کبھی دوستوں کے چہرے کبھی داغ رفتگاں کے
قمر جمیل