غزل
یہ سانس بھرتی ہوئی زندگی کا دکھ ہے مجھے
تمہارا اس کا اور اس کا سبھی کا دکھ ہے مجھے
سمٹ گئیں کسی جنگل کی وحشتیں مجھ میں
سو گھر میں ہوتے ہوئے بے گھری کا دکھ ہے مجھے
بہت زیادہ اندھیروں سے بھی شکایت تھی
اور ان دنوں تو بہت روشنی کا دکھ ہے مجھے
میں رو پڑوں گا بہت بھینچ کے گلے نہ لگا
میں پہلے جیسا نہیں ہوں کسی کا دکھ ہے مجھے
یہ کوئی شعر نہیں ہیں یہ زخم ہیں میرے
طبیب بولتا ہے شاعری کا دکھ ہے مجھے
بچھڑ کے تجھ سے میں انسانیت سے گر گیا ہوں
تو خوش ہوا ہے تو تیری خوشی کا دکھ ہے مجھے
قمر عباس قمر