غزل
جب سے جنوں کو قائم بالذات کر لیا ہے
دنیا سے اپنے دل کو محتاط کر لیا ہے
میں کس کے غم سے اپنی تسکین کر رہا ہوں
کس کی نفی کو اپنا اثبات کر لیا ہے
اک شہر کو بڑھا کر جنگل بنا رہا ہوں
اک ابر کو گھٹا کر برسات کر لیا ہے
اچھی سی زندگی اب بازار سے خریدو
مرنے کا ساز و ساماں افراط کر لیا ہے
ماضی کے عرشؔ اب تک کیوں ساتھ چل رہے ہیں
کیا جانے میں نے ان کو کیوں ساتھ کر لیا ہے
آکاش عرش