غزل
خیر سے اب ہے وہاں آپ کا بیمار کہ بس
اس قدر دیر لگا دی مرے سرکار کہ بس
سیر ہوتا ہی نہیں ذوق تماشا لیکن
مجھ سے کہتی ہے مری جرأت دیدار کہ بس
ہجر کے نام پہ بھی وصل کے عنوان سے بھی
عشق نے اتنے دئے ہیں مجھے آزار کہ بس
کس قدر تھی وہ نظر آئنہ کردار نہ پوچھ
اس قدر چور ہوا ہے بت پندار کہ بس
نہ غم دل کے ہی بس کے نہ غم دوراں کے
اتنے آزاد ہوئے تیرے گرفتار کہ بس
دل ایوبی