غزل
پھر اعتبار عشق کے قابل نہیں رہا
جو دل تری نظر سے گرا دل نہیں رہا
نشتر چبھوئے اب نہ پشیمانئ نگاہ
مجھ کو تو شکوۂ خلش دل نہیں رہا
موجیں ابھار کر مجھے جس سمت لے چلیں
حد نگاہ تک کہیں ساحل نہیں رہا
کل تک تو میرے سینے میں آباد تھا مگر
لیکن کہاں گیا ہے وہ دل مل نہیں رہا
کیا کہئے اب مآل محبت کی سرگزشت
یاد اس کی رہ گئی ہے مگر دلؔ نہیں رہا
دل شاہجہاں پوری