غزل
میں ترے ڈر سے رو نہیں سکتا
گرد غم دل سے دھو نہیں سکتا
اشک یوں تھم رہے ہیں مژگاں پر
کوئی موتی پرو نہیں سکتا
شب مرا شور گریہ سن کے کہا
میں تو اس غل میں سو نہیں سکتا
مصلحت ترک عشق ہے ناصح
لیک یہ ہم سے ہو نہیں سکتا
کچھ بیاںؔ تخم دوستی کے سوا
مزرع دل میں بو نہیں سکتا
بیاں احسن اللہ خاں