غزل
مر ہی گئے جفاؤں سے قاتل تڑپ تڑپ
میں کیا کہ اور کتنے ہی بسمل تڑپ تڑپ
پنجڑے کو توڑ سینے کے یہ مرغ دل مرا
نکلے گا کوئی دم ہی میں غافل تڑپ تڑپ
کہتے ہیں اضطراب ہے تیرا پسند یار
آرام و صبر بھول جا گھائل تڑپ تڑپ
میں کس روش سے تم کہو ممنون دل نہ ہوں
پہنچا دیا ہے ان نے بہ منزل تڑپ تڑپ
آرام زندگی تو گیا مدتوں سے عشقؔ
دیکھیں پھر آگے کیا کرے یہ دل تڑپ تڑپ
خواجہ رکن الدین عشق