غزل
زاہد کہوں کیا تجھ سے کہ ہوں اب میں کدھر کا
آفت زدہ ہوں یار ادھر کا نہ ادھر کا
کس طور دل اس خنجر مژگاں کی سپر ہو
مقدور جہاں ہو نہ قضا کا نہ قدر کا
گلزار میں دنیا کے ہوں جو نخل بھچنپا
خواہش نہ ثمر کی نہ میاں خوف قہر کا
میں ہاتھ میں ہوں باد کے مانند پر کاہ
پابند نہ گھر کا ہوں نہ مشتاق سفر کا
اس سے جو کیا عشقؔ کا مذکور کسی نے
بولا کہ عبث ذکر ہے اس خاک بسر کا
خواجہ رکن الدین عشق