غزل
ہر ایک آنکھ کو ذوق جمال دے یا رب
دلوں کو عشق و وفا کا جلال دے یا رب
ہے میرے ذہن رسا میں جو اک تصور حق
مرا قلم اسی سانچے میں ڈھال دے یا رب
زباں سے بات جو نکلے ہمیشہ حق نکلے
لسان صدق کو حسن مقال دے یا رب
اس عہد زور میں اس کا سنبھلنا مشکل ہے
تو ہی شریفوں کی پگڑی سنبھال دے یا رب
کھٹک رہا ہے دلوں میں مرے حریفوں کے
بہت دنوں سے جو کانٹا نکال دے یا رب
نفس میں گرمیٔ ایمان بوزر و سلماں
دلوں میں سوز اویس و بلال دے یا رب
جو خواہشوں میں گھرا ہو وہ تجھ سے کیا مانگے
تجھے جو دینا ہے وہ بے سوال دے یا رب
وفا ملک پوری