loader image

MOJ E SUKHAN

عہد ساز شخصیت ڈاکٹر عتیق احمد جیلانی 

عہد ساز شخصیت ڈاکٹر عتیق احمد جیلانی

 

سرمئی شاموں ،ٹھنڈی راتوں اور ہوادوانوں کے شہر حیدرآباد نے ہر شعبہ میں مختلف مکتبہ فکر کے افراد دنیا میں اپنی اپنی قابلیت کا اعتراف کرا چکے یا کرا رہے ہیں
انہی شخصیات میں شاعر، ادیب،محقق دانشور، پروفیسر، ڈاکٹر عتیق احمد جیلانی کا شمار کیا جاتا ہے 1956 میں ٹنڈو محمد خان کے ادبی گھرانے میں آنکھ کھولنے والے عتیق احمد جیلانی نے دسویں جماعت علامہ اقبال ہائی اسکول، گورنمنٹ کالج لطیف آباد سے بی اے، اور یونیورسٹی آف سندھ سے ایم اے اردو، مسلم ہسٹری، پی ایچ ڈی کی سند حاصل کیں۔اور اپنی زندگی کا بیشتر حصہ شعر و ادب،علم اور ماں کی خدمت میں گزارا ۔ڈاکٹر عتیق احمد جیلانی نے دوران تعلیم ساتوں جماعت میں پہلا شعر کہا،، کہ،،

ایک دیوار گرانے کے لیے،
ایک دیوار اٹھا دی جاے،

اور ایک آزاد نظم،، جمود،،، کے عنوان سے اسکول کے ہونے والے مشاعرے میں پڑھی، اسکول کے معلم موصوف کے انداز و علم سے متاثر تھے۔ڈاکٹر عتیق جیلانی نے شعر و ادب کے حصول کے لیے باقاعدہ نہ تو کسی کو استاد بنایا اور نہ ہی اصلاح حاصل کی ۔مگر۔ اسکول کے ہیڈ ماسٹر سید مشتاق علی کی حوصلہ افزائی نے مزید شوق اور جذبہ کو پروان چڑھایا، آٹھویں جماعت میں باقاعدہ پہلا مشاعرہ لاھور میں منعقدہ اسلامی جمعیت طلبہ کانفرنس میں پڑھا جسکی صدارت الطاف حسین قریشی نے کی تھی، اور یو ادبی سفر میں چلتے چلتے ، اورنٹئل کالج منصورہ میں مشاعرہ پڑھنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔۔
1976 میں حبیب ارشد، قمر مشتاق، کے ھمراہ جلیسان ادب،،کے بنیادی رکن رھے، جسکے تحت،کل پاکستان، کل سندھ، مشاعرے ،کتابوں کی رونمائی، اور ہفتہ وار تنقیدی نشستوں کا سلسلہ جاری رکھنے کا اعزاز ںھی حاصل ھے۔
ڈاکٹر عتیق احمد جیلانی کا پہلا شعری مجموعہ،، روز بناتا ھو پل،، کے علاوہ تدوین کردہ کتاب، صنم خانہ عشق، مضامین کا مجموعہ، گلدستے،، کتابوں پر تبصروں پر مبنی،، تبصرے،، اور،، ڈاکٹر نجم السلام کی شخصیت پر ،،ایک شخص ایک عہد،،، بھی مرتب کر چکے ہیں۔ ریڈیو، پی ٹی وی، جیو ٹی وی کے علاوہ مقامی ویب ٹی وی پر ادب کے لیے سلسلہ وار تنقیدی و معلوماتی پروگرام کے سلسلے کے زریعےنشر ہونے والے پروگراموں میں بالخصوص نوجوانوں کی تربیت کے لیے لوازمہ بھی موجود ہے۔ 13 جنوری 2016 کو یونیورسٹی آف سندھ سے ریٹائرمنٹ کے بعد سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی تعلیمی کمیٹی میں پہلی جماعت تا بارہویں جماعت کی کتابوں کی تیاریوں میں مصروف عمل رہے ۔اگر ڈاکٹر عتیق احمد جیلانی کے بارے میں یوں کہا جائے کہ موصوف نے تاحال جو کچھ کیا اس سے بیشتر طالبعلم،اساتذہ فیض حاصل کر رہے ہیں تو بے جا نہ ہوگا ۔کیونکہ موصوف نے جتنے بھی پل بناۓ وہ اپنی گزر گاھ کے بجائے دوسروں کی آسانی کے لیے بناۓ۔ جسکا اظہار انہوں نے اپنی شاعری میں بھی کیا بلا شبہ سب اہل علم، اہل،وطن، اولاد کے لیے پل بناتے ہیں۔ جنہیں عبور کرکے ترقی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔۔

روز بناتا ھوں پل، دریا پار نہیں کرتا
میں رستے اپنی خاطر ھموار نہیں کرتا

اس حقیقت سے فرار ناممکن ہے کہ معاشرے کے مسائل دکھ درد. سمجھنے کے لیے مطالعہ بے حد ضروری ہے، شعر کے تخیل میں پوشیدہ اصل حقائق ہی معاشرے کی اصلاح و ترقی کا باعث بنتے ہیں۔ جبکہ غزل شاعری کی وہ صنف ھے جس سے شعر و سخن کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ ڈاکٹر عتیق احمد جیلانی کی شاعری و ادبی خدمات خون جگر سے کی گئی خدمات علم و فن کے لیے نہ صرف تحفہ ہیں بلکہ تاریخ ادب میں سنہری الفاظ میں لکھی جانے والی گراں قدر خدمات بھی جنہیں ہمیشہ قابل ستائش و قدر سمجھا جا ۓ گا۔
بقول عتیق جیلانی ،،

سننے والے زرا دیر کو بھی سماعت سے غافل نہ ہوں،
اپنے ہم راہ لے کر چلی جائے گی یہ کہانی ہمیں،،،
میں نے دیکھا ہے جب سے خواب سخن،
دل میں روشن ہے ماہ تاب سخن،

کون مجھ کو سمیٹ سکتا ہے، وقت ہوں آدمی میں آتا ہوں،،
روز جل آٹھتی ہیں آنکھیں یہ چراغوں کی طرح،،
شام سے کون کہے، قرض اتارے اپنے،

اک عمر کی تاخیر کے بعد اس کی صدا پر،
ٹہرے،، تو کوئی اور صدا لے گئ ہم کو،،

تجھ کو بھی معلوم نہیں اس کوچے میں،
ایک خیال خام لیے پھرتا ہوں

 

تحریر فیاض الحسن فیاض