عالمی شہرت کے حامل ساجد رضوی
،، پاکستان کے بیشتر علاقوں میں چراغ سخن اگر آج روشن ہے تو اس. میں ساجد رضوی کی ادبی خدمات بالخصوص انتھک کاؤشوں کو فراموش نہیں کیاجاسکتا، عالمی شہرت یافتہ، مکتب داغ،کی کہکشاں کے منور ستارے و درویشانہ صفت کے حامل ناظم، منتظم،صاحب اسلوب شاعر نے 1945 میں انڈیا کے صوبےجے پور میں ادبی کہکشاں کو منور رکھنے کے لیے آنکھ کھولی۔ دنیائے ادب کے بلند پایہ شاعر رفیق ریواڑی کے گلشن میں اپنی خوشبوؤں سے ادبی فضا کو تاحال مہکانے والے ساجد رضوی نے دوران تعلیم شاعری کی شروعات کی 1968 میں سندھ یونیورسٹی انجنئیرنگ کالج سے بی ٹیک الیکٹریکل انجینئر کی ڈگری کے علاوہ بیرون ملک، آسٹریلیا سے
ایجوکیٹر، براڈ ھڈ یونیورسٹی فلپائن و دیگر ممالک سے تعلیم حاصل کی۔گورنمنٹ کالج نوابشاھ میں منعقدہ مشاعرے سے شہرت کے افق پر نمودار ہونے والے شاعر کی غزل کو نہ صرف پزیرائی حاصل ہوئی بلکہ بلندی کے زینہ پر پہلا قدم بھی ثابت ہوا۔ یہاں یہ امر قابل وضاحت ہے کہ ساجد رضوی کی غزل کا شعر،
ریت کی دیوار ہوتی جارہی ھے زندگی،،
اب سہارا بھی اگر دو گے تو دب جاؤ گے تم،،،
کو مسند نشین اساتذہ شعراء نے نہ صرف سراہا بلکہ دنیائے ادب کے نامور شاعر ،مصطفیٰ زیدی نے اس شعرپر منفرد حوصلہ مند انداز میں داد دیتے ہوے کہا کہ ساجد میاں آپ شعر نہ پڑھا کریں کیونکہ یہ شعر تمھاری عمر سے بڑا ہے جو کم از کم تمہیں 70 سال کی عمر میں کہنا چاہیے۔۔ یہ تھی وہ داد ستائش اور حوصلہ افزائی جس نے ساجد رضوی کو آج اس مقام پر پہنچا دیا۔واضح رھیکہ مصطفیٰ زیدی کے لیے جوش ملیح آبادی نے (یادوں کی بارات) میں اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کاش میں مصطفیٰ زیدی جیسی شاعری کرتا۔ مزید یہ کہ جہاں میرا اختتام ہوتا ہے وہاں سے مصطفیٰ زیدی کا مقام شروع ہوتا ہے،
ادبی افق کے زینے چڑھتے چڑھتے دنیاے ادب میں ساجد رضوی عالمی شہرت کے حامل شخصیت قرار پائے ۔فروغ ادب سے والہانہ وابستگی کے دوران ہی میجر اعظم کمال جو کہ اس وقت حیدرآباد کے حاضر سروس میجر تھے انہوں نے سندھ بالخصوص حیدرآباد میں زینہ پاکستان کے زیرانتظام ادبی تقاریب منعقد کرنے کی اہم ذمہ داری ساجد رضوی کے کاندھوں پر ڈال دی۔ جسے موصوف نے خوش دلی کے ساتھ نہ صرف قبول کیا بلکہ ادب کے فروغ وترقی کے لیے مسلسل کوشاں نظر آۓ۔ اور زینہ پاکستان کے صدارتی عہدے پر قابض رہنے کے بجائے زینہ پاکستان کا دائرہ وسیع کرنے کی غرض سے کراچی میں زاہد حسین جوہری اور حیدرآباد میں سیف محمد شیخ کو صدارت عہدوں پر فائز کرکے بحثیت نگراں، سربراہ خدمات کو اپنا نصب العین جانا۔۔انکا یہ ہی ادبی جنون آج انکی شناخت ہے۔
امریکا سے پاکستان میں مختصر قیام کے دوران حیدرآباد میں عالمی،کل پاکستان ،کل سندھ مشاعرے و دیگر اہم ادبی تقاریب منعقد کرانے کا سہرا بھی ساجد رضوی کے ماتھے پر سجتا ہے۔ اور نامور شعراء کرام جمیل الدین عالی، حمایت علی شاعر، امید فاضلی، قتیل شفائی، احمد فراز، امجد اسلام امجد، کو اپنے مشاعروں میں مدعو کرکے حیدرآباد میں تاریخی مشاعرہ کرانے کا اعزاز اور کراچی سمیت ملک کے دیگر شہروں سے بیشتر شعراء کو پہلی مرتبہ حیدرآباد میں متعارف کرانے میں بھی ساجد رضوی کی خدمات ادبی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھی جائیںنگی۔ کیونکہ ساجد رضوی پوری دنیا میں غزل گوئی کی بناء پر پہچانے جاتے ہیں، اور انکی آواز عالمی سطح پر گونجتی بھی نظر آتی ہے۔اردو ادب کی دنیا کا کوئی شخص ایسا نہیں جو انکے نام سے واقف نہ ہو۔دنیاۓادب کے اثاثے جوش ملیح آبادی، مصطفیٰ زیدی، رفیق ریواڑی، و دیگر کی صدارت میں مشاعرے پڑھنےکا اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔صرف یہ ہی نہیں بلکہ حیدراباد میں دنیائے ادب کا شائع کردہ زخیم ترین،، جمیل الدین عالی،، نمبر کی رونمائی کے بعد اگلی صبح ریڈیو پاکستان حیدرآباد میں تمام مہمان شعراء نے جمیل الدین عالی کی صدارت میں مشاعرہ پڑھا جسکی نظامت کے فرائض، نقاش کاظمی نے ادا کئے، واضح رھیکہ یہ ریڈیو حیدرآباد کی تاریخ کا پہلا اور آخری واقعہ ہے کہ کسی ادبی تنظیم کا ریڈیو اسٹوڈیو میں ریکارڈ شدہ مشاعرہ پورے پاکستان میں نشر کیا گیا ۔
ادبی حلقوں میں موصوف کی صلاحیتوں کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ہر صاحب شعور واقف تو ہیں ہی مگر تسلیم بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔جسکی بنیاد پر حیدرآباد سمیت دیگر شہروں میں ساجد رضوی کی ادبی کاوشوں کو فراموش کرنا ناممکن سا نظر آتا ہے ۔ موصوف کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حیدرآباد لٹریچر فیسٹیول میں ادبی خدمات پر مذاکرہ سمیت ملک کے بڑے شہروں میں ساجد رضوی کے اعزاز میں تقریب و مشاعرے میں نمایاں مقام ہی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔صرف یہ ہی نہی بلکہ سرکاری سطح پر محترمہ شھید بے نظیر بھٹو کے حیدرآباد میں افتتاح کے موقع پر ہونے والی تقریب کی نظامت سمیت اہم سرکاری تقاریب میں معاونت ،نظامت کرنے کا اعزاز بھی موصوف کو حاصل ہے
ساجد رضوی کا شمار اساتذہ کی قدیم شاعری سے سیکھنے والے عہد حاضر کے جدید شعرا میں کیا جاتا ہے۔ کیونکہ نیا لہجہ ہی پرانے لہجہ کی شناخت ہوتا ہے ۔۔اگر ساجد رضوی کی پسندیدہ شاعری کی بات کی جائے تو انہیں حمد، نعت،رباعی، مرثیہ، غزلیں بہت پسند ہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ ساجد رضوی کے حمدیہ،نعتیہ،کلام اور منقبت سمیت غزلیات جو کہ کافی عرصہ سے انکی ذاتی ڈائریوں میں محفوظ تھیں عنقریب کتابی شکل میں منظر عام ہونے والی ہیں ۔۔صرف یہ ہی نہیں بلکہ گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران عالمی،کل پاکستان ،کل سندھ و دیگر مشاعروں اور اردو ادب کی تقریبات کی روئداد کتابی شکل میں تین سو صفحات کی زینت بھی بننے والی ہیں ۔ یہاں یہ امر قابل وضاحت ہے کہ ساجد رضوی کی بیرون ملک مصروفیات اور پاکستان میں مختصر چار ماہ میں قیام کے دوران ادبی تقاریب میں مصروف رہنے کی بناء پر انکا ادبی کلام صرف اور صرف انکی ذاتی ڈائریوں میں محفوظ رہا۔۔ جو کہ عنقریب ہاتھوں میں نظر آئیگا۔
اگر ساجد رضوی کے شعری تخئیل کی بات کی جائے تو ان کی منفرد شاعری ہی موصوف کی جداگانہ شناخت ہے۔۔
مسجود کائنات میں ساجد ہوں نام کا،،،
مسجود کائنات مجھے میرا نام دے،
تمام عمر کی محرومیوں سے سیکھا ہے،،
خیال دل زدگاں کسطرح رکھا جائے،
اپنی غزلیں بیچنے والوں کے بچے تو پل ہی جاتے ہیی، ،
پیٹ کا ایندھن بھر جاتا ہے ھاتھ مگر جل جاتے ہیں،،
دیار خوش نظراں اس سے کوئی کیا پوچھے،،،
جو اپنے ہی بچوں سے خود گھر کا راستہ پوچھے،،،
ازراہ اختلاف نظر ایک ہو گئے،
سب بے ہنر بنام ہنر ایک ہو گئے،،
مندرجہ بالا اشعار غزل گوئی میں اپنا نمایاں مقام رکھتے ہیں۔
،،بقول ساجد رضوی کے،،
اس قدر تیز بوا تھی کہ بکھر ہی جاتا،
وہ. تو وحشت نے سنبھالا ھے مجھے ناز کے ساتھ،
تحریر فیاض الحسن فیاض