غزل
ہزار حیف محبت میں کچھ مزا نہ ملا
کہ دردِ دل تو ملا درد آشنا نہ ملا
جو میرے حال کو بالکل مری طرح سمجھے
تمام عمر ہوئی ایک آشنا نہ ملا
لگائی آس بہت تجھ سے تیرے سر کی قسم
خموش ہو رہے جب کوئی آسرا نہ ملا
تو ہی بتا کہ کدھر جائیں تیرے دیوانے
حرم میں دیر میں تیرا کہیں پتا نہ ملا
حرم کی خاک بھی ہم نے بہت اڑا دیکھی
خدا تو خیر کوئی مرد با خدا نہ ملا
یہ کیا کہ اس کو جو پایا تو پھر ہمیں نہ رہے
ملا جو یوں تو برابر ہے وہ ملا نہ ملا
ہوس پسند طبیعت نے کی بہت تدبیر
مگر نوشتۂ تقدیر سے سوا نہ ملا
مجھے جہان میں جتنے بھی با کمال ملے
فریب کار ملے کوئی بے ریا نہ ملا
جو مدرسہ میں نہ تھا کوئی واعظ رنگیں
تو میکدے میں کوئی رند پارسا نہ ملا
یہ رنگ دیکھ کے دنیا کا راہبر اپنا
بنا میں آپ مجھے کوئی رہنما نہ ملا
جلیل قدوائی