غزل
کھولے ہوئے گیسو ہو پریشان لگو ہو
اس دل کی طرح تم بھی مری جان لگو ہو
دلبر ہو دل آرا ہو دل آرام ہو پھر بھی
تم آفت جاں موت کا سامان لگو ہو
مسجود تمنا ہو کہ معبود محبت
بت خانۂ دل کا مرے ارمان لگو ہو
سجدوں سا تڑپ جاؤ ہو پیشانیٔ دل میں
کافر جو بنا دے ہے وہ ایمان لگو ہو
تصویر تغزل بھی ہو چہرہ بھی کتابی
آؤ نا پڑھیں تم مرا دیوان لگو ہو
پھر شہر تمنا میں کوئی خون ہوا ہے
یہ بات نئی ہے جو پشیمان لگو ہو
اس ذہن سے گزرے ہو سحرؔ یوں تو ہمیشہ
تم کون ہو بھولی ہوئی پہچان لگو ہو
بدیع الزماں سحر