غزل
صورتِ آب رواں تھا، مجھ کو صحرا کردیا
خواہشاتِ زندگی نے ، مجھ کو تنہا کر دیا
گھر کی ویرانی، حدودِ جسم و جاں تک آگئی
وحشتِ دل نے مسائل میں اضافہ کر دیا
بیچ ڈالے خواب اپنے ، حسرتیں نیلام کیں
میں نے اپنی آرزؤں کا بھی سودا کر دیا
کر رہی تھیں وحشتیں میرا تعاقب، دشت میں
ایک نادیدہ شجر نے ، مجھ پہ سایہ کردیا
جن کے دم سے انجمن آرائیاں تھیں سب گئے
مجھ کو یادِ رفتگاں نے ، آب دیدہ کر دیا
آئینے کے سامنے آنے کی خواہش نے مجھے
بے نیازِ لذتِ آغوشِ دنیا ، کر دیا
آئینے کے عکس ، میری دسترس میں آگئے
اس نے میرے سامنے ، جب اپنا چہرہ کردیا
پھر کوئی جگنو صفت آیا ، حد, ادراک میں
پھر کسی نے خلوتِ جاں میں اجالا کر دیا
میرے کشکول سخن میں حرف لو دینے لگے
خود بھی زندہ ھوگئے مجھ کو بھی زندہ کردیا
اختر سعیدی