غزل
پہاڑوں سے اترتی شام کی بے چارگی دیکھیں
درختوں پر لرز کر بجھ رہی ہیں آخری کرنیں
بہت ہی سرد ہے اب کے دیار شوق کا موسم
چلو گزرے دنوں کی راکھ میں چنگاریاں ڈھونڈیں
بھلا پتھر بھی روتے ہیں کبھی شیشے کے زخموں پر
اگر ہوتا ہے ایسا تو حساب دوستاں بھولیں
سواد شام میں ڈھونڈیں کوئی مانوس سا چہرہ
ہوا کی رہ گزر پہ ایک ننھا سا دیا رکھیں
کہاں الفاظ دیتے ہیں ہمارا ساتھ اب فکریؔ
کہے اشعار سب بے جاں ہوئیں بے کار سب غزلیں
پرکاش فکری