غزل
دل ہے تو مگر دل میں وہ جذبات نہیں اب
اک ساز ہے جو حامل نغمات نہیں اب
وہ سلسلۂ حرف و حکایات نہیں اب
ملتے ہیں مگر لطف ملاقات نہیں اب
در پردہ اشارات و کنایات نہیں اب
یعنی نظر افروز حجابات نہیں اب
ملنے کو تو ملتی ہیں نگاہوں سے نگاہیں
وہ لطف سوالات و جوابات نہیں اب
اب شام و سحر میں نہیں بے تابئ فطرت
آشوب تمنا لئے دن رات نہیں اب
صہبائے طرب کون پئے کون پلائے
وہ رند وہ ساقی وہ خرابات نہیں اب
سب اٹھ گئے خوش رنگ حجابات نظر سے
دنیا مری نظروں میں طلسمات نہیں اب
حبیب احمد صدیقی