loader image

MOJ E SUKHAN

ہیں وقت کے محکوم تو بہکیں گے قدم اور

غزل

ہیں وقت کے محکوم تو بہکیں گے قدم اور
بدلے ہوئے حالات میں کھو جائیں گے ہم اور

افسانۂ اندوہ میں یکساں ہے ہر اک شخص
اس دور پر آشوب میں تم اور نہ ہم اور

لے جاتے ہیں بت خانے سے دل اپنا جلا کر
رکھ لیں گے نئی شمع سر طاق حرم اور

ہر شخص تھا خاموش مرے بعد ازل میں
پوچھا جو گیا ہے کوئی شائستہ غم اور

سانچے میں مسرت کے ڈھلا ہے غم الفت
اے گردش آفاق مجھے دے کوئی غم اور

اول تو بچھڑتے ہی چلے جاتے ہیں ساتھی
پڑتا ہے برا وقت تو ہو جاتے ہیں کم اور

حالات موافق نظر آتے نہیں قیصرؔ
ہیں ترکش ایام میں کچھ تیر ستم اور

قیصر حیدری دہلوی

ایک تبصرہ چھوڑیں