غزل
اتار پھینکو لباس تن سے یہ شہرِ دل کا رواج نئیں ہے
میں شاہزادہ ہوں پاس میرے قلم تو ہے سر پہ تاج نئیں ہے
فضول باتوں میں صرف کردی حیات جتنی تھی پاس میرے
کہا سنا معذرت کہ پاسِ وفا کی بھی مجھ میں لاج نئیں ہے
حریف میرے مقابلے میں کھڑے ہوئے ہیں تو کیا کروں میں
جو کل ملا تھا وہ دوست ہمراہ بتاؤں کیسے کہ آج نئیں ہے
سخنورو ہائے بزمِ غم ہے یہاں پہ بیٹھے ہیں لوگ جم کر
ہزار شاعر ہیں شہر بھر کے ہمارا اجمل سراج نئیں ہے
بتاؤں کیا داستان اپنی سناؤں کیا حال زندگی کا
ندیم مدت سے پھر رہا ہوں ملا کوئی کام کاج نئیں ہے
ندیم ملک