غزل
بڑے سوال ہوئے دوست رکھ رکھاؤ کے بیچ
کہ میرا سانس دبایا گیا بہاؤ کے بیچ
یہ فصل فصل ـ بہاراں ہے احتیاط کے ساتھ
بڑا کھٹن ہے گزرنا یہاں دباؤ کے بیچ
کہ میرے قتل میں شامل تمھارا ہاتھ نہیں
یقین کیسے دلاؤں تمھیں الاؤ کے بیچ
خدا کرے کہ محبت سے جان بچ جائے
خدا کرے وہ ہرا دے مجھے بھی داؤ کے بیچ
اداس شام ہے اور سردیوں کا موسم ہے
اکیلا بیٹھا ہوں مدت سے میں بھی ناؤ کے بیچ
جھلس رہا ہے بدن اور ایسا لگتا ہے
کسی نے نام لکھا ہے مرا بھی گھاؤ کے بیچ
ندیم میں نے کہانی کو مختصر کر کے
تمھارا نام بھی شامل کیا ہے داؤ کے بیچ
ندیم ملک