غزل
تمنا دو دلوں کی ایک ہی معلوم ہوتی ہے
اب ان کی ہر خوشی اپنی خوشی معلوم ہوتی ہے
دلوں پر سب کے اک افسردگی معلوم ہوتی ہے
تری محفل میں یہ کس کی کمی معلوم ہوتی ہے
سمجھ کی چال چل جاتا ہے دیوانہ محبت کا
بظاہر وہ بھی اک دیوانگی معلوم ہوتی ہے
بجا ہنستا ہے گر ہنستا ہے کوئی میرے جینے پر
مجھے خود زندگی اپنی ہنسی معلوم ہوتی ہے
جہاں قدرت کسی سے پھیر لیتی ہے نظر اپنی
وہیں انسان کی بے مائیگی معلوم ہوتی ہے
یقیں محکم عزائم آہنی سعی و عمل پیہم
انہیں سے آدمی کی زندگی معلوم ہوتی ہے
کمینے رخ بدلتے ہیں ہوا پر تو کمینے ہیں
شریفوں میں یہ کمزوری بری معلوم ہوتی ہے
ذرا ٹھہرو مرے آنسو تو پورے خشک ہونے دو
ابھی آنکھوں میں تھوڑی سی نمی معلوم ہوتی ہے
ادھر تو آ ذرا منہ چوم لوں قربان ہو جاؤں
ادائے برہمی بھی کیا بھلی معلوم ہوتی ہے
یہی دل کی لگی کیا جانے کیا کیا رنگ لائے گی
ابھی تو آپ کو اک دل لگی معلوم ہوتی ہے
کسی کا ہر تبسم دل کے حق میں گھاؤ ہے تازہ
پرانی چوٹ بھی ابھری ہوئی معلوم ہوتی ہے
کھلونا ہے دل مجبور الفت ان کے ہاتھوں کا
محبت کی اسی سے سادگی معلوم ہوتی ہے
گھسیٹے جاتے ہیں کانٹوں میں ان کے چاہنے والے
خدا جانے محبت کیوں بری معلوم ہوتی ہے
جبین شوق کا جب رابطہ ہو ان کے قدموں سے
انہیں سجدوں میں شان بندگی معلوم ہوتی ہے
تصرف دید کے قابل ہے کاملؔ چشم ساقی کا
نظر ملتے ہی دنیا دوسری معلوم ہوتی ہے
کامل شطاری