غزل
ہے کدھر قبلہ بتاؤ کس طرف سر خم رہے
میری نظروں میں تو ہر سو قبلۂ عالم رہے
زندگی جیسی بھی کچھ ہو جو بھی کچھ عالم رہے
دم بھرے جائیں گے تیرا دم میں جب تک دم رہے
داغ دل زخم جگر سے اور کچھ مطلب نہیں
بات صرف اتنی ہے کوئی یادگار غم رہے
کس نے محسوسات کی دنیا کو بخشی آگہی
چاہنے والوں میں پہلے تم رہے یا ہم رہے
دیدۂ تر اک علامت ہے حیات عشق کی
دل میں خود دھڑکن رہے گی چشم جب تک نم رہے
اس حسیں الجھن سے سو سو حسن پیدا کیوں نہ ہوں
زلف کی ہر برہمی پر جب کوئی برہم رہے
عزم و استقلال ہے شرط مقدم عشق میں
کوئی جادہ کیوں نہ ہو انسان اس پر جم رہے
دور جانا ہے تجھے اک بات سن لے دور کی
خوش مسافر آں کہ می دارد بغربت ہمرہے
بن گئیں خود آفت جاں اپنی گوناگونیاں
عشق ہو یا حسن ہر پردے کے پیچھے ہم رہے
میری پہلی پرورش تقدیس کی آغوش میں
قدسیوں کے سر بھی کاملؔ میرے آگے خم رہے
کامل شطاری