علی شاہی کی شاعری گلگت کی برفیلی تنہائیوں سے ابھرتی وہ آواز ہے جو لفظوں کو سانس دیتی ہے، اور درد کو زبان۔ یہ صرف اشعار نہیں، یہ ایک ذہنی، جذباتی اور فکری زلزلہ ہے جس میں قاری ہچکولے کھاتا ہوا اپنے ہی اندر اتر جاتا ہے۔
شاہی کا شعری سفر نئے لہجے کا وہ پتھر ہے جو جامد جھیل میں ارتعاش ڈالتا ہے۔ ان کے ہاں محبت، تنہائی، شعور اور المیے کو اس شدت سے برتا گیا ہے کہ قاری بے بسی کے ساتھ خود کو ایک آئینہ پاتا ہے—جس میں وہ صرف شاعر کو نہیں، خود کو بھی دیکھتا ہے۔
میں نے سر درد کا بہانہ کیا
درد سینے میں ہو رہا تھا مجھے
یہ محض جسمانی کیفیت نہیں، یہ روحانی اضطراب کا اظہاریہ ہے۔ یہاں درد داخلی ہے، اور بہانہ خارجی—یوں جیسے شاعر اندر کی چیخ کو باہر کی خاموشی سے چھپانا چاہتا ہو۔
جہاں مذہب سکھایا جا رہا ہے
وہاں افکار مارے جا رہے ہیں
یہ مصرعہ صرف شعر نہیں، عہد نامہ ہے، ایک سوشیولوجیکل تجزیہ جو سچائی سے بھی زیادہ بے رحم ہے۔
میں پاؤں دھر رہا ہوں آسماں پر
زمیں سر پر اٹھانا چاہتا ہوں
یہ خواب نہیں، ایک اعلان ہے۔ شاعر اپنی حد سے نکل کر انسان کے مقام کو کائناتی سطح پر دیکھتا ہے۔
علی شاہی کی خاص بات یہ ہے کہ وہ خود کو نہ مکمل "عاشق” کہتے ہیں نہ مکمل "شاعر”—بلکہ ایک ایسا فرد جو محبت میں بھی مجرم ہے اور خیال میں بھی باغی۔
تیرے ہونے سے جو سہولت ہے
اس سہولت سے جی نہیں بھرتا
یہ جملہ محبت کی مروجہ تعریفوں سے بغاوت ہے۔ یہاں شاعر محبت میں سہولت نہیں، شدت چاہتا ہے، ایک ایسا عشق جو سکون نہیں، سکوت توڑتا ہے۔
شاہی کا اسلوب خود کلامی اور داخلی مکالمے پر مبنی ہے۔کئی اشعار میں لگتا ہے جیسے قاری نہیں، شاعر خود اپنے ضمیر سے الجھ رہا ہے:
میں نے دیکھا کہ میرے کمرے میں
لاش تھی اور لاش بھی میری
یہ منظر ایک نظم نہیں، ایک خواب ہے جس میں شاعر اپنی ہی موت کو دیکھتا ہے—مگر صرف جسمانی نہیں، فکری موت بھی۔
علی شاہی کی شاعری کی زمین گلگت کی بلندیاں ضرور ہیں، مگر اس کا آسمان پورا برصغیر ہے۔ ان کے اشعار زبان، علاقے اور روایتوں کی قید سے نکل کر ایک ایسی کائناتی اردو میں ڈھلتے ہیں جو ہر دل کی زبان بن سکتی ہے۔
آخر میں، علی شاہی کو پڑھنا ایسا ہے جیسے کسی پہاڑی ندی میں ہاتھ ڈالنا—پانی شفاف ہے، مگر بہت سرد، اور اس کی گہرائی میں کہیں کہیں چٹانیں ہیں جو زخمی بھی کر سکتی ہیں۔ یہ شاعری سہل نہیں، سہج بھی نہیں۔ یہ شاعری اندر کا دروازہ کھولتی ہے—اور کئی بار وہ دروازہ صرف باہر کو نہیں، اندر کو بھی جاتا ہے۔
یہ "نیا دست خط” نہیں، ایک پرانا زخم ہے جو اب بولنے لگا ہے۔
دکھ یہ ہے کہ اے شخص تو مجھ بد نصیب کا
برسوں کا انتخاب تھا پر عام بن گیا
میں نے سر درد کا بہانہ کیا
درد سینے میں ہو رہا تھا مجھے
تیرے ہونے سے جو سہولت ہے
اس سہولت سے جی نہیں بھرتا
میری وسعت کے سامنے دنیا
میرے کمرے کا ایک کونا ہے
کچھ نہ ہوتے ہوۓ یہاں شاہی
اک مصیبت خدا کا ہونا ہے
جہاں مذہب سکھایا جا رہا ہے
وہاں افکار مارے جا رہے ہیں
کبھی شیطاں کو کنکر مارتے تھے
ابھی دینار مارے جا رہے ہیں
مدتوں بعد مسکرایا ہوں
میری تصویر کھینچ لی جائے
شہر میں زندگی بسر کرنے
گاؤں سے بد نصیب آتے ہیں
ہم بشر کی نمو کے قائل ہیں
ہم بشر کو خدا بنائیں گے
جسے تم چاہتی تھی مر گیا وہ
بڑی منحوس چاہت ہے تمہاری
تمہیں دعویٰ ہے دریا سے وفا کا
مگر کشتی سلامت ہے تمہاری
اتنی وحشت ہے میرے سینے میں
درد سے درد مار سکتا ہوں
میرے کردار پہ جلتی ہے وہ سوتن کی طرح
چاندنی رات نے جگنو کی شکایت کی ہے
تمہارے ساتھ تو خوش تھا ہی لیکن
تمہارے بعد بھی راضی رہا ہوں
بہت شرمندہ ہوں تجھ سے بچھڑ کر
مجھے مرنا تھا لیکن جی رہا ہوں
سب سے آگے نکلنا تھا مجھ کو
خود سے آگے نکل گیا ہوں میں
دیا ہوں میں مگر سب لے رہے ہیں
یہاں جگنو کی معلومات مجھ سے
مسئلہ سوچ میں ہوسکتا ہے
مسئلہ یار نہیں ہو سکتا
میں نے کل پانچ محبت کی ہے
میں سزاوار نہیں ہوسکتا
آئنہ ہوں کہ عکس ہوں ، کیا ہوں ؟
کچھ ادھر ہوں بھی یا نہیں ہوں میں
مجھ کو جبراً قبول مت کرنا
آخری راستہ نہیں ہوں میں
تم بہت دیر بعد آؤ گے
ہم بہت پہلے مر چکے ہوں گے
وہ اذیت خدا کسی کو نہ دے
جو اذیت شعور دیتا ہے
زمیں پر کفر پھیلایا گیا ہے
خدا کی آزمائش ہو رہی ہے
تیری تصویر چومنے والا
میں نہیں تھا خیال تھا میرا
غمِ ہجراں میں کٹ گیا ورنہ
یہ محبت کا سال تھا میرا
تیری تصویر جو ہے گیلری میں
یہ سستا فون بھی مہنگا ہوا ہے
میں پاؤں دھر رہا ہوں آسماں پر
زمیں سر پر اٹھانا چاہتا ہوں
تمہارے بعد دل آیا کسی پر
کلیجہ منہ کو آنا چاہیے تھا
کیا کہا ! مجھ سے ملنے آؤ گے
اس کا مطلب بہار آۓ گی
ایک تتلی نے میرا نام لیا
اپنے پہلے خطاب سے پہلے
اس قدر شور ہے میرے اندر
چیخ اٹھتی ہے خامشی میری
میں نے دیکھا کہ میرے کمرے میں
لاش تھی اور لاش بھی میری
کوئی آۓ تو پھول پیش کرے
ہم میں ایسے تکلفات نہیں
جتنی رنگیں تمہاری آنکھیں ہیں
اتنی رنگین کائنات نہیں
وہ لڑکی اب جوانی کھو رہی ہے
محبت برگزیدہ ہو رہی ہے
جبیں پر نور آتا جا رہا ہے
بدن کی آگ ٹھنڈی ہو رہی ہے
دل کو آرام کی ضرورت ہے
میرے سینے پہ رکھ لو سر اپنا
عاشقی میں جنون چاہتا ہوں
آپ اپنا ہی خون چاہتا ہوں
مجھ کو اپنی امان میں رکھنا
موت جیسا سکون چاہتا ہوں
تمہاری بے رخی سے لگ رہا ہے
محبت کے لیے مرنا پڑے گا
تمہاری سمت چل کر آ رہا ہوں
میں اپنے آپ سے کرکے کنارا
ہمارے در تلک پھر آگئی ہے
محبت نیند میں چل کر دوبارہ
کن زمانوں میں کھو گئے تھے ہم
دو گھڑی ہی تھا کال کا عرصہ
مر نہ جاۓ کہیں اذیت سے
کٹ نہ جاۓ ملال کا عرصہ
میں کہ دریا ہوں اک اداسی کا
مجھ میں بہہ کر خوشی نہیں ہوگی
تیرے جانے کے بعد گاؤں میں
چاند کی روشنی نہیں ہوگی
میں نے اپنی طرف رجوع کیا
جب زمیں آسماں سے کچھ نہ ہوا
مر گئے رفتگاں کی یاد میں ہم
خالقِ دو جہاں سے کچھ نہ ہوا
ہمارے بعد کیا تم خوش رہو گے؟
تمہارے بعد کیا ہوگا ہمارا
اسے اپنی محبت کی پڑی ہے
ہمیں دکھ ہے یہاں ہونا ہمارا
بہت ممکن ہے ہم سے دور جاۓ
اترتی دھوپ میں سایا ہمارا
تمہارا نام چلتا ہے وہاں پر
جہاں چلتا نہیں سکہ ہمارا
میں شاکی ہوں فرشتوں کے لکھے پر
خدایا خود مری فائل بنانا
تمھیں کچھ یاد ہے چوری چھپے وہ
ہمارا کاپیوں پر دل بنانا
میں نے دو لڑکیوں کا دل توڑا
ایک لڑکا مری نظر میں رہا
وہ زلفِ مشکبو ہے اور میں ہوں
صبا سے گفتگو ہے اور میں ہوں
تمہارے بعد میری زندگی میں
تمہاری آرزو ہے اور میں ہوں
مجھ سے اب عشق تک نہیں ہوتا
کتنا بے کار ہو چکا ہوں میں
وہ مری آخری حماقت تھی
اب سمجھدار ہو چکا ہوں میں
کیا پتا موت کا فرشتہ کل
آدمی کا شکار ہو جائے
عشق ایسا ہو کہ اترتے ہی
آدمی کو بخار ہو جائے
اپنی دہشت کا یہ عالم تھا کہ خوف آتا تھا
رات کے تین بجے نیند نہیں آتی تھی
میں نے اک عمر کوئی خواب نہیں دیکھا تھا
مسئلہ یہ تھا مجھے نیند نہیں آتی تھی
اس لیے دیر تلک سوتا ہوں
میرے خوابوں میں پری آتی ہے
پہلے آ جاتی ہے حساسیت
پھر محبت میں کمی آتی ہے
رحمِ مادر میں بچے کی صورت
ہم زماں و مکاں کے خول میں ہیں
رات تنہا گزارے والے
دن محبت کے نام کرتے ہیں
تُو ہے پہلو میں اور مجھ کو یہاں
تیرے جانے کا غم ابھی سے ہے
چاند راتوں میں کیوں نہیں ملتے
کیا تمھیں خوف روشنی سے ہے؟
اداسی کھا گئی ہے تن بدن کو
جوانی ہے مگر ہلچل نہیں ہے
ترے کہنے پہ تجھ کو بھول جائے
علی شاہی کوئی پاگل نہیں ہے
مجھ کو گلگت کی نہ پنڈی کی فضا راس آئی
میں کہاں جاؤں کہاں خواب بُنوں چین ملے
میں سرِ طور سلامت ہوں یہی آس لیے
کب تجلی ہو عطا اور جلوں چین ملے
آج پھر پیڑ کی محبت میں
اک پرندے نے خودکشی کی ہے
ان صحیفوں سے کچھ نہیں ہوگا
میں نے تجھ سے کلام کرنا ہے