غزل
عموماً ہم اکیلے بیٹھتے ہیں
وہ بیٹھا ہے تو چلئے بیٹھتے ہیں
مری آنکھوں میں گنجائش تو کم ہے
پر اس کے خواب پورے بیٹھتے ہیں
اٹھیں نظریں تو نظروں سے گریں گے
یہاں نظروں پہ پہرے بیٹھتے ہیں
ادب کا فرش ہے یہ اس پہ بچے
بزرگوں کے سہارے بیٹھتے ہیں
وہ خود مرکز میں تھوڑی بیٹھتا ہے
سب اس کے آگے پیچھے بیٹھتے ہیں
اداسی سے بھروسا اٹھ رہا ہے
چلو ناصرؔ کو پڑھنے بیٹھتے ہیں
چراغ شرما