پروفیسر ڈاکٹر سید محمد اقبال شاہ ایک ہنرمند نظم نگار
شاعر علی شاعرؔ(کراچی)
غزل میں اگر سات شعر ہیں تو ہر ایک شعر میں الگ خیال وفلسفہ پیش کیا جاتا ہے، مگر نظم کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو اور وہ کتنے ہی مصرعوں پر مشتمل ہو، اُس کے تمام مصارع میں ایک ہی خیال پیش کیا جاتا رہتاہے، اِسی لیے نظم کا عنوان پہلے سے طے کرلیا جاتا ہے، جیسے”بارش“ اب اِس بارش نظم میں تمام مصرعوں میں بارش اور اُس سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کا بیان ہوگا، اُس میں پانی، برکھا، ساون، بوند، اولے،کالی گھٹا،موسلادھار،چھاجوں، قطرے، قوسِ قزح، دھنک، ابرآلود موسم، برق، چمک دمک، بجلی کی گونج، چیزوں کا جل تھل ہونا، پھولوں، کلیوں،اشجار اوربرگ و بار کا بارش کے پانی سے دھل کر نکھر جانا بھی نظم کا حصہ کہلائے گا۔
پروفیسر ڈاکٹر سیدمحمد اقبال شاہ صاحب نے اپنی نظموں میں یہی فارمولا اختیار کیا ہے جس پر اُن کی تمام نظمیں پوری اُترتی ہیں اور معیاری ہونے کا ثبوت دیتی ہیں۔ شاعرِ موصوف کی نظموں میں زیادہ تر نظمیں معریٰ شاعری کا پیکر رکھتی ہیں، اُن کی پابند نظموں کی تعداد آزادومعریٰ نظموں کے مقابلے میں کم ہیں، مگراُن کی نظمِ معریٰ اور آزادنظمیں خاصی توانا اور زود اثر محسوس ہوتی ہیں کیوں کہ وہ جس موضوع کو بیان کرنا چاہتے ہیں اُس کا حق ادا کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی ہر نظم کا موضوع توانائی سے بھرپور ہوتا ہے اور اُن کی ساری نظمیں اپنے موضوعات کے محور پر گھومتی ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر سیدمحمد اقبال شاہ صاحب کی نظموں میں ”آئینہ“،حقیقت“،”زندگی“،”بے بسی“،”مجھے بس اتنا کہنا ہے“،”امید“،”معصومیت“،”امتحان“اور ”شامِ غم اِس طرح منائی ہے“، قابلِ ذکر نظمیں ہیں،مگر آخرالذکر نظم کوجس سے اِس مجموعے کانام بھی منتخب کیاگیاہے،اُن کی نمائندہ نظم کہا جاسکتاہے۔آئیے یہ نظم ملاحظہ کرتے ہیں جس سے اُن کی نظم نگاری کی بُنت کا انداز بھی سامنے آتاہے:
توڑ کر پتلیوں سے کچھ آنسو
وحشتیں لے کے اپنی سوچوں سے
اور اُمید لے کے سانسوں سے
گوندھ کر خواہشوں کی کچھ مٹی
دامِ تنہائی میں بچھا کر دل
گزرے لمحوں کی اوڑھ کر چادر
بے بسی کو بٹھا کے قدموں میں
بزدلی نام کی کڑک چائے
اپنے ہونٹوں سے ہی لگاتے ہوئے
رنج و غم، درد کو چھپاتے ہوئے
بے وفائی کے گیت گاتے ہوئے
اے محبت تری عقیدت میں
عشق کی دیکھ لے فضیلت میں
دربدر ہو کے بھی یہاں ہم نے
ایک حجرے میں رکھ کے آئینہ
ڈال کر اُس پہ ہجر کی چادر
پڑھ کے اپنی غزل پرانی اِک
تیری تصویر سامنے رکھ کر
چار چھ آٹھ گالیاں دے کر
اُس نے پوچھا تو کہہ دیا ہم نے
شامِ غم اِس طرح منائی ہے
شامِ غم اِس طرح منائی ہے
پروفیسر ڈاکٹر سیدمحمد اقبال شاہ صاحب اپنے دل میں آئے خیال، ذہن میں سمائے تصور اور دل میں آنے والے تخیل کو بہت ہی حسن وخوبی کے ساتھ بیان کرنے پر دست رس رکھتے ہیں۔ اُن کی نظموں میں سب سے زیادہ قابلِ ذکر چیز منظر نگاری ہے جو بہت غضب کی ہے۔ اِسی منظر نگاری نے اُن کی نظم نگاری کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ وہ نظموں میں اپنے تلخ و شیریں تجربات بیان کرنے پر آتے ہیں تو اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہیں، اُس کے نشیب و فراز منظوم کرتے ہیں تو اُس کی جزئیات تک بیان کر جاتے ہیں جس سے اُن کی نظموں کا ہر مصرع قابلِ مطالعہ اور اثر انگیز ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے عمیق مشاہدات کا اظہار کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہے ہیں۔ ایک ایک سین کسی فلم کی طرح قرطاس پر الفاظ کے ذریعے پینٹ کر دیتے ہیں جس کی ہر تصویر دیدہ زیب اور پیکر دل کش نظر آتا ہے اور متاثر کن بھی۔ وہ اپنی نظموں میں اپنے جذبات کی شدت بھی دِکھاتے ہیں اور وارداتِ قلبی کی توانائی بھی بھر دیتے ہیں، اِسی لیے اُن کی نظمیں اُردو ادبِ عالیہ کی تصویریں پیش کرتی ہیں۔ وہ اپنے تجربات کو بھی شاعرانہ جمال کے ساتھ بیان کرنے پر قدرت رکھتے ہیں اِسی لیے میں اُنہیں پورے وثوق سے ایک ہنر مند نظم نگار کے نام سے موسوم کرتا ہوں۔ اُن کی نظمیں کسی بھی بڑے نظم نگار شاعر سے کسی طور پر بھی کم نہیں اور نہ کم زور ہیں۔ اُن کی منظومات کے تمام مصارع اور ٹکڑے ایک دوسرے سے ایسے مربوط و پیوستہ ہیں جیسے ایک کڑی سے دوسری کڑی مل کر زنجیر بناتی ہے اور اگر زنجیر میں سے ایک کڑی کو بھی اگر الگ کر دیا جائے تو وہ زنجیر ٹوٹ جاتی ہے اور زنجیر کہلانے کے قابل نہیں رہتی۔ اِسی طرح اُن کی کسی بھی نظم سے ایک مصرع یا ٹکڑا بھی الگ نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ ایک مصرع الگ کرنے سے اُس نظم میں جھول پیدا ہو جائے گا اور نظم کا تاثر وہ نہیں رہے گا جو اَب اُن کی نظموں میں موجود ہے۔ اُن کے موضوعات کے اظہار میں دولخت ہونے کا نقص موجود نہیں ہے۔ اکثر نظم نگار شعرا اِسی کمال میں ناکام نظر آتے ہیں، ناکام نظم نگاروں کی نظموں میں دونوں مصرعے دولخت ہوتے ہیں، ایک کچھ اور مفہوم پیش کرتا ہے تو دوسرے کے معنی کچھ اور نکل رہے ہوتے ہیں، مگر پروفیسر ڈاکٹر سیدمحمد اقبال شاہ صاحب کی ہرنظم اپنے عنوان کے ماتحت مصرعوں پر مبنی ہوتی ہے اور اپنی اپنی جگہ اپنااپنا مفہوم ادا کرتی ہیں۔ نظم میں یہی بات اہم ہوتی ہے اور نظم کو نظم بناتی ہے۔ شاعرِ موصوف کی یہی خوبی قابلِ ذکر ہے۔ اُن کی ہر نظم مرقع کشی کی آئینہ دار نظر آتی ہے اوروہ اپنی ہر نظم میں شفاف و شستہ الفاظ کا انتخاب کرتے ہیں اور اُنہیں محاکاتی انداز میں نظم کا حصہ بنا دیتے ہیں اِسی لیے اُن کی عظمتِ شاعرانہ سامنے آئی ہے اور اُن کا شمار بڑے نظم نگاروں میں ہوا ہے۔ اُن کی قدردانی مسلّم ہے اور اُنہیں دیگر نظم نگاروں سے تقدم حاصل ہوگیا ہے۔ اُن کے یہاں شاعرانہ انفرادیت موجود ہے جس کے سبب وہ اپنے ہم عمر اور ہم عصر نظم نگاروں سے ممتاز و منفرد ہو گئے ہیں بلکہ کچھ نگاروں سے دو قدم آگے کھڑے نظر آتے ہیں کیوں کہ اُن کی نظم حسنِ بیان اور شعریت میں کسی بڑے نظم نگار سے کم نہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر سیدمحمد اقبال شاہ صاحب کی ایسی بہت سی نظمیں ہیں جن میں معروف شاعر اور اُن کی مشہور نظموں جیسی توانائی اور خیالات کی رنگا رنگی موجود ہے۔ اِس لیے دورِ حاضر کے نظم نگاروں میں اُن کا نام بھی اُردو ادبِ عالیہ کے تناظر میں پیش کیا جاتا رہے گا۔ اُن کی نظموں میں سادہ بیانی بھی ہے اور سہلِ ممتنع کی عمدہ مثالیں بھی۔ وہ اپنے مافی الضمیر کو نہایت آسانی اور شگفتگی کے ساتھ بیان کر دیتے ہیں۔وہ نظموں میں اپنے تلخ و شیریں تجربات، شدید جذبات، نازک احساسات اور کیفیات پیش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اُن کی نظموں میں مفہوم و مقصد کے لحاظ سے بلند خیالی بھی قابلِ تحسین ہے۔ نظم کی ایک خوبی سادہ بیانی بھی ہوتی ہے اور دوسری خوبی فکر و خیال اور موضوع کی۔یہ دونوں خوبیاں اُن کی نظموں میں بدرجہ اتم درآتی ہیں کہ اُن میں خیال آفرینی اور فکر انگیزی سامنے کی چیزیں ہیں۔ دوسری بات بیان کی تازگی ہے اور مصرعوں میں غنائیت کے زیورات سے بھی اُن کی نظمیں زینت پاتی ہیں۔ میں پاکستان کے اِس مستقبل کے ہنر مند نظم نگار کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور میرا غالب گمان ہے کہ اُن کی نظم نگاری کا سفر اگر اِسی طرح کامیابی،لگن و شوق اورتلاش و جستجو سے جاری رہا تو کل وہ پاکستان کے نمائندہ نظم نگاروں کی صف میں شامل ہوجائیں گے۔
۰۰۰