غزل
ہمیں اپنے تو کیا غیروں کو ٹھکرانا نہیں آتا
رواداری کی راہوں سے بھٹک جانا نہیں آتا
دیا امید کا رہبر بنا لیتا ہوں منزل تک
مجھے رستے کی تاریکی سے گھبرانا نہیں آتا
گلستان محبت میں کچھ ایسے پھول کھلتے ہیں
جنہیں موسم بدلنے پر بھی مرجھانا نہیں آتا
جہاں تک ہو سکے ہر حال میں ہم شاد رہتے ہیں
وفور یاس میں بھی اشک برسانا نہیں آتا
رہ منزل ہماری حوصلہ مندی سے واقف ہے
ہمیں بڑھنا تو آتا ہے پلٹ آنا نہیں آتا
خدائے دو جہاں نے یہ صلاحیت ہمیں دی ہے
کبھی مکر و ریا کا جال پھیلانا نہیں آتا
ملا صبر و قناعت کا اثاثہ مالک کل سے
یہ نعمت ہے ہمیں نعمت پہ اترانا نہیں آتا
تہی کاسہ لیے واپس کھنڈر میں لوٹ آئے ہیں
ہمیں احساس محرومی کو بھڑکانا نہیں آتا
تھپیڑے یاس و غم کے کھائے ہیں دن رات اے گوہرؔ
مگر اب تک فریب آرزو کھانا نہیں آتا
گلدیپ گوہر