غزل
سر بھی بھاری ہے دل بھی بھاری ہے
بے قراری سی بے قراری ہے
آسماں پر ستارے ہیں روشن
کیسی قدرت کی دست کاری ہے
پیاس نے آج کر دیا ثابت
ذائقہ آنسوؤں کا کھاری ہے
آپ جس کو نہ سن سکے اب تک
بس وہی داستاں ہماری ہے
رات کے بعد صبح کا آنا
سلسلہ یہ ازل سے جاری ہے
آج کل کے شریف زادوں میں
صاف گوئی نہ انکساری ہے
آپ ہندی زباں پہ شیدا ہیں
ہم کو اردو زبان پیاری ہے
بھیس بدلے ہوئے نہ ہو گوہرؔ
آپ کے در پہ جو بھکاری ہے
گلدیپ گوہر