ویسے ہی خیال آ گیا ہے
یا دل میں ملال آ گیا ہے
۔
آنسو جو رکا وہ کشت جاں میں
بارش کی مثال آ گیا ہے
۔
غم کو نہ زیاں کہو کہ دل میں
اک صاحب حال آ گیا ہے
۔
جگنو ہی سہی فصیل شب میں
آئینہ خصال آ گیا ہے
۔
آ دیکھ کہ میرے آنسوؤں میں
یہ کس کا جمال آ گیا ہے
۔
مدت ہوئی کچھ نہ دیکھنے کا
آنکھوں کو کمال آ گیا ہے
۔
میں کتنے حصار توڑ آئی
جینا تھا محال آ گیا ہے
ادا جعفری