loader image

MOJ E SUKHAN

بات سے بات نکلنے کے وسیلے نہ رہے

بات سے بات نکلنے کے وسیلے نہ رہے

لب رسیلے نہ رہے نین نشیلے نہ رہے

.

اشک برسے تو دروں خانۂ جاں سیل گیا

درد چمکا تو در و بام بھی گیلے نہ رہے

.

پھول سے باس جدا فکر سے احساس جدا

فرد سے ٹوٹ گئے فرد قبیلے نہ رہے

.

ٹیس اٹھتی ہے مگر چیخ نہیں ہو پاتی

تیرے پھینکے ہوئے پتھر بھی نکیلے نہ رہے

.

موت نے چھین لیا رنگ بھی نم بھی خالدؔ

آنکھ بھی سوکھ گئی ہونٹ بھی نیلے نہ رہے

خالد احمد

ایک تبصرہ چھوڑیں